اگر سوچتے ہوئے ڈر محسوس ہو تو سوچنا چھوڑیں نہیں، اگر آج سوچ لیں گے تو کل کو عمل اچھا کریں گے اور نفع بھی آپ ہی کو ہو گا۔ اگر ابھی بھی آپ نے سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے تو آپ بھی دنیا پر ایک اضافی بوجھ سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
اس حوالے سے ایک حدیث حضرت عمرو بن عاصؓ سے روایت کردہ کچھ یوں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ’’سن لو اور یاد رکھو کہ دنیا ایک عارضی اور وقتی سودا ہے جو فی الوقت حاضر اور نقد ہے اور اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اس لئے ہر نیک و بد کا حصہ اس میں ہے اور سب اسے کھاتے ہیں اور یقین کرو کہ آخرت مقررہ وقت پر آنے والی ایک اٹل حقیقت ہے اور قدرت رکھنے والا شہنشاہ اس میں فیصلہ کرے گا۔ یاد رکھو ساری خوشگواری اور خیر اور اس کی ساری قسمیں جنت میں ہیں اور سارے شر اور دکھ اور اس کی قسمیں دوزخ میں ہیں۔ خبردار ان سے ڈرتے رہو اور ہر عمل کے وقت آخرت کو پیش
نظر رکھو اور یقین کرلو کہ تم اپنے اپنے اعمال کے ساتھ رب تعالیٰ کے حضور پیش کئے جائو گے‘‘۔اس حدیث میں ساری بات کھول کے رکھ دی گئی ہے۔ دنیا کی تمام لذتیں اورفائدے سب عارضی ہیں جس طرح ایک جادوگر اپنے جادو کا مظاہرہ کرکے وہ دکھاتا ہے جو دراصل موجود نہیں ہوتا۔ اس کا کھیل آنکھوں کا دھوکہ ہوتا ہے بلکہ اسی طرح ایک مقررہ وقت پر یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا لیکن جو کچھ ہم کررہے ہیں وہ سب ایک ہارڈ ڈرائیو میں جمع ہورہا ہے جسے اعمال نامہ بھی کہا جاتا ہے جو روزِ قیامت ہر ایک کے ہاتھ میں ہوگا جس طرح پاس ہونے والے طلباء کو اگلی جماعت میں اور فیل ہونے والے طلباء کو سابقہ جماعت میں بھیج دیا جاتا ہے اسی طرح اچھے اعمال کے ریکارڈیافتہ جنت کی طرف اور برے اعمال نامے کے حامل دوزخ کی طرف بھیج دیئے جائیں گے۔ دوزخ اور جنت کیا ہے یہ بھی حدیث میں واضح ہے۔
اب ہمارا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ’’قیامت کا حساب ہونے سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرلو اور اعمال کا وزن ہونے سے پہلے ان کو تولو اور بڑی پیشی کے لیے تیار رہو‘‘ تمام حقیقت ہے جو ہمیں ہمارا دین بتا رہا ہے اور ہم ایمان والوں سے تقاضا کررہا ہے کہ ہم اپنے اخلاق کا تزکیہ کرلیں۔ اپنی غلطیوں کو خود ہی پکڑیں، خود کو ڈانٹیں، سرزنش کریں یہ اس سے بہتر ہے کہ خدا کی سزا کا انتظار کیا جائے۔ آئندہ بھی ان غلطیوں سے بچیں اور سب سے اہم بات کہ روزانہ سوتے وقت سارے دن کے واقعات کو یاد کرکے اپنی باتوں اور کاموں پر غور کریں، اپنی نمازوں کو وقت پر ادا کرنے کی سعی کریں۔ غلطی اور گناہ سے مکمل طور پر بچنا تو ممکن نہیں البتہ توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ رب تعالیٰ نے انسان اور اپنے مابین کوئی راستہ بند نہیں کیا مگر یہ ہم ہی ہیں جو اس تک جانے والے راستوں کو چھوڑ کر دیگر غیر ضروری راستوں پر چل پڑتے ہیں۔ یاد رکھیں! کہ جب بھی گناہ کا احساس ہو، فوراً معافی مانگ کر آئندہ اس سے بچنے کی کوشش (باقی صفحہ نمبر 58 پر)
(بقیہ:ہمدردی اورمخلوق خدا کی مدد اپنا مقصد بنالیں )
کریں۔ خود کو کبھی بھی مکمل نہ سمجھیں کیونکہ خود پسندی حماقت اور نفس کے لئے ہلاکت ہے۔ دوسروں کے خزانچی نہ بنیں، اپنے کردار اور اعمال پر تنقیدی نگاہ ڈالیں کیونکہ آدمی کا اسلام یہ ہے کہ وہ بے فائدہ باتوں کو ترک کردے، اپنے اندر خوش اطواری، مضبوط ایمان اور خدا پر یقین پیدا کرے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے ہماری بہتری کے لیے کرتا ہے۔ خیرخواہی اور ہمدردی کے جذبات اپنے اندر پیدا کریں ورنہ انسان جتنا بھی ترقی کرلے اگر وہ دوسروں کے لیے فائدہ مند نہیں تو وہ بغیر پتوں اور پھولوں کا ایک ایسا شجر ہے جس سے سائے کی اُمید بھی نہیں کی جاسکتی۔ حضرت جنید بغدادی ؒ کا قول ہے کہ تم ہر وقت یہ دیکھتے رہو کہ خدا سے کتنے قریب اور شیطان سے کتنے دور ہوئے، جنت سے کتنے قریب ہوئے اور دوزخ سے کتنے دور ہوئے یہی ہمارا خود احتساب کا ٹارگٹ ہونا چاہیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں